By – Waseem Raza Khan
مہاراشٹر میں آئندہ بلدیاتی انتخابات، جن میں نگر پالیکا، مہا نگر پالیکا، ضلع پریشد اور پنچایت سمیتی کے لیے امیدوار منتخب کیے جائیں گے، اس الیکشنی موسم نے ایک بار پھر ریاست کی سیاست کو گرما دیا ہے۔ گزشتہ دو سالوں سے یہ تمام ادارے انتظامیہ کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے شہریوں کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب جب الیکشن کمیشن نے اعلان کر دیا ہے اور حلقوں کی تشکیل بھی ہو چکی ہے، تو خواہشمند امیدواروں میں بھگدڑ مچی ہوئی ہے اور سیاسی جماعتوں میں دل بدلنے کی رسم اور لیڈرشپ کی رسہ کشی اپنی انتہا پر ہے۔ یہ انتخابی ماحول، بالخصوص مالیگاؤں شہر کے تناظر میں، کئی سنجیدہ سوالات کھڑے کرتا ہے۔
یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ مقامی اداروں کا دو سال تک انتظامیہ کے کنٹرول میں رہنا جمہوری عمل میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ایڈمنسٹریٹر، چاہے کتنے ہی قابل کیوں نہ ہوں، وہ عوام کے سامنے براہ راست جوابدہ نہیں ہوتے۔ اس عرصے میں، شہری مسائل (جیسے بنیادی ڈھانچہ، صفائی، پانی کی فراہمی) پر کام کی سست رفتاری، یا نمائندگی کی کمی کے سبب عوامی آواز کا دب جانا، فطری ہے۔ الیکشن کے اعلان ہوتے ہی لیڈروں کی یہ بھگدڑ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اقتدار سے دور رہنے کا درد انہیں ستاتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ درد عوام کے مسائل کے بارے میں ان کی حقیقی تشویش کو بھی ظاہر کرتا ہے؟ مالیگاؤں مہا نگر پالیکا کے انتخابات شہر کی سیاست کے دو مختلف رنگ پیش کرتے ہیں، جو بالآخر صرف سیاسی مفادات کا مظاہرہ لگتے ہیں۔
مالیگاؤں بیرونی علاقے میں وزیر دادا بھوسے (شندے سینا) کا غلبہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ ان کا وزیر تعلیم ہونا اور حکمران جماعت سے تعلق، اس بات کی ضمانت ہے کہ زیادہ تر امیدوار انہی کی پارٹی سے الیکشن لڑنے کے خواہش مند ہوں گے۔ یہ صورتحال یکطرفہ مقابلے کی طرف اشارہ کرتی ہے، جہاں ترقیاتی ایجنڈے سے زیادہ اقتدار کی لہر پر بھروسہ کیا جائے گا۔ اگر شندے سینا میئر یا ڈپٹی میئر کی کرسی حاصل کرتی ہے، تو یہ پارٹی کے لیے سیاسی مضبوطی ہوگی، لیکن کیا یہ شہر کی متوازن ترقی کی ضمانت ہوگی؟
وسطی مالیگاؤں کی صورتحال زیادہ دھماکہ خیز ہے۔ یہاں ایم ایل اے مفتی محمد اسماعیل کے غلبے کو سابق ایم ایل اے آصف شیخ کی پارٹی اور سماج وادی پارٹی کے ممکنہ اتحاد یا بعد از انتخابات تال میل ٹوٹنے کےامکان ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس علاقے میں ووٹوں کا غیر معمولی بکھراؤ ہو سکتا ہے۔ ایک ہی حلقے سے کئی امیدوار اس طرح میدان میں اتر سکتے ہیں کہ سارے ووٹ ‘بھیل’ کی طرح مکس ہو کر کوئی ایک امیدوار بہت کم ووٹوں کے فرق سے جیت جائے۔ یہ صورتحال جمہوریت کی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ لیڈروں کا مقصد صرف سیٹ جیتنا ہے، نہ کہ مضبوط عوامی بھروسہ حاصل کرنا۔ کم ووٹوں سے جیتنے والا نمائندہ پورے حلقے کی نمائندگی کس طرح کر پائے گا؟
مالیگاؤں وسط میں ابھی سے جو “ملامت اور کیچڑ اچھالنے کی دوڑ” شروع ہو گئی ہے، وہ سب سے زیادہ تشویشناک ہے۔ جب لیڈر اور ان کے حامی ایک دوسرے کی عزت کو سڑکوں پر لا کر ذاتی تنقید میں مشغول ہو جاتے ہیں، تو بنیادی شہری مسائل پر بحث مکمل طور پر پچھڑ جاتی ہے۔ ایسی منفی سیاست میں مالیگاؤں وسط کے ووٹروں کے ساتھ محض دھوکہ ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ پارٹیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں رہیں گی، اور شہر کی عوام صرف لیڈروں کی کھوکھلی تقریروں کا شکار ہوتی رہے گی۔
یہ اندیشہ درست ہے کہ انتخابات کے بعد مہا نگر پالیکا کا ہال “کُشتی کا اکھاڑہ” بن جائے گا، جہاں پہلے کی طرح ہی بھائی بھتیجا واد اور بدعنوانی کو فروغ ملے گا۔ سڑکوں اور نالوں کی صرف سطحی مرمت ہوگی، پائیدار حل نہیں ملے گا۔ عوام خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہے گی اور اپنے ووٹوں کا نقصان محسوس کرے گی۔ جب تک مقامی انتخابات صرف ذاتی غلبے، پارٹیاں بدلنے اور کرسی کی رسہ کشی تک محدود رہیں گے، تب تک مقامی حکومت صرف ایک کھوکھلا نعرہ بن کر رہ جائے گی۔
شہر کے باشعور شہریوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس شور سے اوپر اٹھ کر حقیقی ترقی کے ایجنڈے پر دھیان دیں۔ پچھلے دو سالوں کے انتظامی دور نے یہ واضح کر دیا ہے کہ عوامی نمائندگی کے بغیر بنیادی مسائل کا حل ناممکن ہے۔ نئے نمائندوں کو شہر کی طویل مدتی استحکام اور شہریوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کچھ شعبوں پر فوری اور ٹھوس کام کرنا ہو گا. صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا، نالیوں کے نظام کو بہتر بنانا، اور آن لائن جی آئی ایس بیسڈ (GIS-based) سسٹم کے ذریعے پانی کے ضیاع کو روکنا۔ شہر کے بے ہنگم حالات کو روکنے کے لیے ایک دور اندیش ماسٹر پلان پر عمل کرنا۔ سڑکوں کو صرف لیپا پوتی نہیں، بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ کے اصولوں پر مبنی بنانا، اور غریبوں کے لیے اسی جگہ جھگیوں کی بحالی کی اسکیموں پر زور دینا جیسے مدعوں پر غور کرنا ہوگا. مہا نگر پالیکا کے سکولوں میں ڈیجیٹل کلاس رومز اور بہتر ٹیچر ٹریننگ کے ذریعے تعلیم کا معیار بلند کرنا۔ پرائمری ہیلتھ سینٹرز کو جدید بنانا، اور مقامی روزگار کے لیے ہنر مندی کے مراکز قائم کرنا ہوگا. بدعنوانی ختم کرنے کے لیے تمام ٹھیکوں کو آن لائن، شفاف ای-ٹینڈرنگ پلیٹ فارم پر لانا۔ شہریوں کی شکایات کے فوری ازالے کے لیے مرکزی، آن لائن شکایت نظام قائم کرنا، جو مقررہ وقت میں حل فراہم کرے، یہ ترقیاتی پروجیکٹ شہر کیلئے اشد ضروری ہیں.
مالیگاؤں کے شہریوں کو چاہیے کہ وہ اپنے امیدواروں سے ذاتی تنقید سے ہٹ کر، ان بنیادی چیلنجوں کے حل کے لیے ٹھوس اور وقت کے پابند روڈ میپ کا مطالبہ کریں۔ جب تک لیڈر ان عوامی ایجنڈوں پر کام کرنے کا بھروسہ نہیں نہیں دکھاتے، تب تک عوام اپنے ووٹوں کا نقصان دیکھتی رہے گی




