By – Waseem Raza Khan
مہاراشٹر حکومت اِن دنوں اپنی اہم منصوبہ بندی لاڈکی بہن یوجنا کو لے کر سرخیوں میں ہے۔ خواتین کو ماہانہ مالی امداد فراہم کرکے اُنہیں بااختیار بنانے کا دعویٰ حکومت کر رہی ہے۔ بلا شبہ یہ اقدام خواتین کی فلاح و بہبود کی سمت میں ایک مثبت پہل ہے اور اِس سے بڑی تعداد میں خواتین کو راحت بھی ملی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ پہل دیگر منصوبوں کو نظرانداز کر کے ہونی چاہیے؟ ریاست میں پہلے سے جاری کئی سماجی اسکیمیں جیسے کہ سنجے گاندھی نرادھار یوجنا، شراون بال یوجنا اور معذور افراد کے لیے اقتصادی امدادی یوجنا آج نظراندازی کا شکار ہو چکی ہیں۔ ان اسکیموں کے مستفیدین، جو کہ بزرگ، بے سہارا اور معذور شہری ہیں، گزشتہ کئی مہینوں سے اپنی مالی مدد سے محروم ہیں۔ یہ وہی طبقہ ہے جو سب سے زیادہ سرکاری مدد پر انحصار کرتا ہے اور جس کے لیے ہر ماہ ملنے والا وظیفہ زندگی گزارنے کا واحد سہارا ہے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت نے لاڈکی بہن یوجنا کو اپنی سیاسی ترجیح بنا لیا ہے اور اِس کے لیے رقم جمع کرنے کی کوشش میں دیگر منصوبوں کے فنڈز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو یہ نہ صرف مالی نظم و ضبط کی خلاف ورزی ہے بلکہ سماجی انصاف کی بھی ان دیکھی ہے۔ کیا خواتین کے بااختیار بنانے کے نام پر بزرگوں، معذوروں اور بے سہارا شہریوں کو اُن کے حق سے محروم کرنا مناسب ہے؟ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر طبقے کے مفادات کی حفاظت کرے۔ صرف مقبول منصوبوں کو ترجیح دینا اور دیگر ضروری اسکیموں کو پس پشت ڈال دینا جمہوری حکمرانی کی ذمہ داری سے بچنے کے مترادف ہے بزرگوں کے لیے امداد اُن کے بڑھاپے کا سہارا ہے۔ معذور افراد کے لیے یہ منصوبہ خود اعتمادی اور گزر بسر کا ذریعہ ہے۔ بے سہارا شہریوں کے لیے یہ ایک ناگزیر زندگی کی ڈور ہے۔اِن اسکیموں کی نظراندازی کسی بھی حساس حکومت کی شبیہ کو داغ دار کرتی ہے۔ لاڈکی بہن یوجنا کی کامیابی پر سوال نہیں ہے، لیکن یہ کامیابی تبھی بامعنی ہوگی جب دیگر اسکیموں کو بھی برابر اہمیت دی جائے۔ خواتین کی بااختیاری کے ساتھ ساتھ بزرگوں، معذوروں اور بے سہارا شہریوں کو بھی بروقت اُن کا حق ملنا چاہیے۔ حکومت کو اپنی ترجیحات میں توازن پیدا کرنا ہوگا، ورنہ یہ تنقید اور عوامی ناراضگی کا باعث بنے گا۔ مقبولیت اور ووٹ بینک کی سیاست وقتی فائدہ تو دے سکتی ہے، لیکن طویل مدتی اعتبار سے معاشرے میں ناانصافی اور عدم مساوات کو جنم دے گی۔