Wednesday, February 5, 2025
Wednesday, February 5, 2025
Wednesday, February 5, 2025
spot_img
spot_img
A venture of Pen First Media and Entertainment Pvt. Ltd
Member of Working Journalist Media Council Registered by - Ministry of Information and and Broadcasting, Govt. Of India. New Delhi
HomeUrduتعلیمی ادارے میں بدعنوانی پر وائرل پوسٹ- راقم خود کی شناخت چھپا...

تعلیمی ادارے میں بدعنوانی پر وائرل پوسٹ- راقم خود کی شناخت چھپا کر کیا چاہتا ہے؟

(وسیم رضا خان، مدیر ہیڈلائن پوسٹ)

سوشل میڈیا ذرائع میں مالیگاؤں شہر کے ایک بڑے تعلیمی ادارے میں بدعنوانی سے متعلق ایک پوسٹ وائرل ہوئی جس نے شہر کے تعلیمی اور سماجی حلقوں کا دھیان اپنی جانب کھینچا. حالانکہ لکھنے والے نے اپنی شناخت چھپاتے ہوئے صرف خود کو ایک سماجی کارکن اور اس ادارے کا سابق طالب علم بتایا لیکن ادارے کا سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا. بدعنوانی کا خلاصہ تو اس نے کھل کر کیا لیکن اگر اپنا نام ظاہر کر کے سامنے آتا تو سمجھا جا سکتا تھا کہ معاملا صاف ہے، لیکن نام نہ ظاہر کرنے سے شبہ ہوتا ہے کہ صرف ادارے کی بدنامی کرنے یا خود کے ساتھ ہوئے کچھ معاملات کا بدلہ لینے کے لیے پوسٹ وائرل کی گئی ہے کیونکہ انداز بیان میں دبے الفاظ اور کچھ چھپانے کا انداز بھی ظاہر ہو رہا ہے. کئی گروپ سے پوسٹ کو کچھ ہی دیر بعد مٹا بھی دیا گیا جس سے شک اور بھی بڑھ جاتا ہے. ریاستی وزیر تعلیم کو توجہ دینے کو بھی کہا گیا ہے، غیر قانونی طریقے سے بھرتی کیے گئے اساتذہ کے نام بھی لکھ دیئے، پھر پوسٹ ڈیلیٹ بھی کر دیا گیا. تعلیمی اداروں میں بد عنوانی اداروں کے عام معاملات جیسے ہو گئے ہیں. اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس جانب کوئی توجہ نہیں دیتا. شکایتی روداد لکھنے والے کو اپنا نام ظاہر کر کے پوری لڑائی لڑنی چاہیے، وزیر سے شکایت کر کے وہی ہوگا جو اکثر سیاست اور اداروں کے پیچ ہوتا ہے، وہی سانٹھ گانٹھ، لین دین اور عام زبان میں کہیں کہیں تو توڑی بازی.میرے تجربے کے مطابق ایسے معاملات میں ادارے کے لوگ مخالف پر ہر قسم کے دباؤ لاتے ہیں، لالچ دیئے جاتے ہیں اور پھر دھمکیاں ملنے لگتی ہیں. اس معاملے میں بھی ایسا ہی کچھ ہو سکتا ہے. کسی کو اگر کسی ادارے کے معاملات میں بد عنوان نظر آتی ہے اور ان کے پاس کچھ ثبوت ہیں تو ایسے شخس کو سب سے پہلے پولس میں شکایت درج کر دینی چاہیے. لیکن ایسا نہ کرتے ہوئے لکھ لکھا کر وائرل کرنا مناسب نہیں، اس کا صاف مطلب ہوتا کہ وائرل کرنے والا آفر کے انتظار میں ہے. ہر تعلیمی اداروے میں کچھ نہ کچھ بدعنوانی ہوتی ہے. کہیں چھوٹی، کہیں بڑی تو کہیں کھلے عام لوٹ کھسوٹ. ایسا کوئی ادارہ سامنے آ کر نہیں کہہ سکتا کہ ان کے معاملات میں کچھ بھی جمع تفریق نہیں ہے. تعلیمی اداروں کے ہر پروٹوکول کو ہر ادارہ پورہ نہیں کرتا. بد عنوانی کے کئی طریقے ہیں لیکن اگر ان بد عنوانیوں کے توڑ کی صحیح معلومات ہو تو کھل کے لڑائی لڑی جا سکتی ہے. میں تعلیمی اداروں کے ان سارے پروٹوکولس اور بدعنوانیوں کے طریقے پر ہمیشہ سے نظر رکھے ہوئے ہوں. کوئی ایسا ادارے کا انتظامیہ نہیں جو مجھ سے آ کے کہہ دے ہمارا ادارہ کسی بھی قسم کے خرد برد سے پاک ہے. المیہ تو یہ ہے کہ دوسرے شہروں کے مقابلے مالیگاؤں اور بالخصوص اردو والوں کے اداروں میں کھلے عام لوٹ مچی ہوئی ہے. شکایت کرنے والے اگر واقعی میں ان بن عنوانیوں سے لڑنا چاہتے ہیں تو صحیح طریقے سے میدان میں اترنا ہوگا. جو پوسٹ وائرل ہوئی اور کچھ گروپس سے مٹا بھی دی گئی تو اس سے یقین کیسے کیا جا سکتا ہے کہ پوسٹ میں لکھا گیا تھا اس پر واقعی میں قدغن لگے گا. مالیگاؤں شہر کے تعلیمی اداروں سے بھی گذارش ہے کہ لوٹ کھسوٹ کا بازار بند کریں، ہر شخص شناخت چھپانے اور دباؤ میں آنے والا نہیں ہوتا. عوام بھی ایسے اداروں پر نظر رکھیں. لوگ نظر انداز کرتے ہیں تو ادارے اپنی من مانی کرتے ہیں اور سرکاری انتظامیہ ان کے ذریعے اپنے گھر بھرتے ہیں. ماضی میں تعلیمی انتظامیہ کے کئی افسران کے گھروں سے بے شمار دولت ملی ہے جو انہی بد عنوان اداروں کے ذریعے ان تک پہنچائی گئی تھی. طلباء کے والدین کا فرض ہے کہ آپ کے بچے جس اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں آپ ان اسکولوں کی ساری معلومات رکھیں. ہیڈماسٹر اور انتظامیہ کے ساتھ ملاقاتیں کرتے رہیں تاکہ ادارہ بد عنوانی پاک رہے. ایسے اداروں پر قدغن لگنا چاہیے. (یہ مضمون نام کے ساتھ اپنے ہی پورٹل پر ڈال دیا ہے)

RELATED ARTICLES
- Advertisment -spot_img

Most Popular