Wednesday, July 30, 2025
Wednesday, July 30, 2025
Wednesday, July 30, 2025
spot_img
spot_img
A venture of Pen First Media and Entertainment Pvt. Ltd
Member of Working Journalist Media Council Registered by - Ministry of Information and and Broadcasting, Govt. Of India. New Delhi
HomeUrduسُدھر جاؤ مالی ووڈ

سُدھر جاؤ مالی ووڈ

By – Waseem Raza Khan (Chief Editor)

(وسیم رضا خان)

کئی سال پہلے مالیگاؤں شہر کے کچھ نوجوانوں نے بالی ووڈ کی فلموں کے اسپوف بنانے کا ایک نیا رواج شروع کیا تھا۔ وہ سوشل میڈیا کا دور نہیں تھا، لیکن ویڈیو تھیٹر پر فلمیں دکھا کر مالیگاؤں کے وہ نوجوان، جو اداکار، مصنف اور ہدایت کار بننے کا شوق رکھتے تھے، کم خرچ اور کسی بھی قسم کے وسائل کے بغیر وی ایچ ایس پر فلمیں بنانے لگے۔ مالیگاؤں کے اس فلم سازی کے شوق پر ملک اور دنیا کے کئی ٹی وی چینلز اور دستاویزی فلم سازوں نے کئی طرح کی تحقیقی ریلز بنائیں، مالیگاؤں کے نوجوانوں کے فلم بنانے کے شوق پر بنی کئی فلمیں دیسی اور غیر ملکی فلم فیسٹیولز میں دکھائی گئیں، کچھ کو ایوارڈ بھی ملے اور یہاں کے فلمی شوق رکھنے والے فنکاروں کو پوری دنیا میں سراہا جانے لگا۔

کچھ سالوں کے بعد سی ڈی اور ڈی وی ڈی کا دور آیا۔ ایسے میں کچھ چھوٹی کمپنیوں نے مالیگاؤں کی سستی اور چھوٹی فلموں کو بازار میں اتارا۔ اسی دوران مالیگاؤں کے فلم بنانے والوں میں فلموں کے اسپوف کو چھوڑ کر ایک نیا ٹرینڈ چل نکلا اور وہ تھا خاندیشی لہجے میں فلمیں بنانا۔ انہیں کسی بھی طرح فلم نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ صرف کامیڈی ویڈیوز ہوا کرتی تھیں۔ اس دور میں مالیگاؤں کے فلم بنانے والوں نے صرف کامیڈی کرنے اور بھونڈی زبان کا استعمال کر کے لوگوں کو ہنسانے کا کام کیا۔ ان فلموں کی زبان کو نہ ہم ہندی کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی اردو میں اسے شامل کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک علاقائی لہجے، جسے خاندیشی کہا جاتا ہے، میں بنائی جانے لگیں اور صرف ہنسی پیدا کرنے کے لیے مختلف قسم کے تماشے کیے جانے لگے۔ ان سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز کی علاقائی مانگ صرف اس لیے بڑھتی چلی گئی کیونکہ اس میں زبان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اور کہانی کے طریقے اور باریکیوں سے بہت دور رہ کر صرف تماشے بازی کی جاتی رہی اور انہیں پسند کرنے والوں میں یہ سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز بکتی رہیں اور شوقین جنونیوں کو کچھ پیسے بھی ملنے لگ گئے۔ یہ سلسلہ بعد میں سوشل میڈیا پر شروع ہو گیا۔

مالیگاؤں میں بننے والی کچھ ہی فلموں کو فلم کہا جا سکتا ہے جو کہانی اور فلم سازی کے اصولوں پر کچھ کھری اترتی ہیں، باقی 90 فیصد کام صرف بھونڈے پن اور زبان کی ایسی تیسی کرتے ہی ہوتا رہا ہے۔ پچھلے دنوں ایک ایسا خاندیشی بھونڈا پن یوٹیوب پر دیکھنے کو ملا جس نے مجھے یہ مضمون لکھنے پر مجبور کر دیا، جس میں ایک بھدے موٹے ادھیڑ عمر کے آدمی کو لیڈیز ٹاپ پہنا کر اسے ٹرانس جینڈر بنایا گیا۔ اس کا بڑا پیٹ، کالا رنگ، فحش کپڑے پہلے ہی فحاشی پھیلا رہے تھے، اس پر اس کا گندا سا انتہائی بھدا کردار اس کردار کو اور گندا کر رہا تھا۔ حالانکہ یہ سارا مواد آج کل یوٹیوب، انسٹاگرام اور دوسرے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرتا ہے لیکن یہ گندا پن، بے ڈھنگے ہنسی ٹھٹھولے ہماری تہذیب پر برا اثر ڈالتے ہیں۔ سنا ہے خاندیشی اسپوف کو بچے بہت پسند کرتے ہیں، اگر ان مواد میں اس طرح کے گندے کردار یا ڈائیلاگ ہوں گے تو ہم سوچ سکتے ہیں بچوں پر اس کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے۔

آپ نے مالیگاؤں کو مالی ووڈ کا نام تو دے دیا لیکن جس طرح کے مواد ہونے چاہییں وہ غائب ہیں۔ فلم کو فلم کے اصول سے بنایا جائے، کہانی مکمل طریقے سے اپنے تقاضے پورے کرے، دیکھنے والوں کو پسند آئے اور سیکھ ملے۔ دنیا میں کئی ایسی کہانیاں ہوا میں گھوم رہی ہیں جنہیں ادب اور فلمی اصولوں کے مطابق فلمایا جا سکتا ہے لیکن مالیگاؤں والوں کا گندا اور بھونڈا طریقہ مالیگاؤں کو بدنام کرنے میں ایک بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ کسی فلمساز پر بائیوپک بننا مالی ووڈ کے لیے بہت تعریف کا کام نہیں ہے، اس فلمساز کی محنت اور سوچ نے اسے اس مقام پر پہنچایا جو صحیح بھی تھا لیکن جب تک مالیگاؤں والے اپنے مواد میں صحیح رنگ نہیں بھرتے انہیں فنکار یا فلمساز کہنا غلط ہوگا۔ آخر میں کہتا چلوں کہ اگر ایسا ہی رہا تو مالیگاؤں میں جن لوگوں نے سماج سدھار مشن شروع کیا ہے انہیں مالی ووڈ کو بھی ختم کرنا چاہیے، کیونکہ یہ بات کہنے میں مجھے کوئی خوف یا ہچکچاہٹ نہیں کہ مالی ووڈ کا مواد سماج میں بگاڑ پیدا کر رہا ہے۔ فلمیں آپ کا شوق ہے تو آپ بنائیے لیکن ان فلموں سے سماج کو کچھ اچھا دینے کی کوشش کیجیے۔

RELATED ARTICLES
- Advertisment -spot_img

Most Popular