سید حسین شمسی

By – Sayyed Husain Shamsi (Mumbai)
تقریباً دو دہائی قبل جب راج ٹھاکرے نے مہاراشٹر میں پہلی بار “مراٹھی لازمی” کا نعرہ بلند کیا تو ممبئی میں زبردست ہنگامہ مچا۔ اسی دوران ایک ممبر اسمبلی، جنہیں اردو پر کافی عبور ہـے مگر مراٹھی زبان سے دلچسپی نہ ہونے کے باعث یہ زبان کبھی ان کی گفتگو کا حصہ نہ بن سکی، ایک شام اُن کے ہاں محفل جمی، تو اتفاق سے اُس کا حصہ میں بھی بن بیٹھا۔ کسی نے سوال کیا:
“بھائی! آپ نے مراٹھی سیکھنے کے لیے ایک ٹیچر رکھا تھا، کہاں ہیں؟ آج کل نظر نہیں آتے۔”
اس سے قبل کہ موصوف جواب دیتے، میں نے بے تکلفی سے برجستہ کہا:
“وہ اردو سیکھ کر چلے گئے!” اور پھر محفل قہقہوں سے گونج اٹھی۔
موصوف نے مسکرا کر کہا:
“کیا کروں… سچ پوچھو تو بڑی کوشش کی….. اور سنجیدگی سے کوشش کی۔۔۔ لیکن کامیاب نہیں ہوا۔ گفتگو یا تقریر کے دوران مراٹھی الفاظ ذہن میں آتے ضرور ہیں، لیکن زبان سے ادا نہیں ہو پاتے۔”
ہمارے اِن آمدار صاحب نے کوشش کی بھی کہ نہیں، یا اگر کی تو کتنی؟ یہ تو نہیں معلوم، البتہ ان کے چہرے پر بـے بسی کے اثرات صاف دکھائی دیئے۔ اور یہ بے بسی صرف ان کی نہیں، بلکہ ہزاروں اُن لوگوں کی ہـے جو مراٹھی پسند تو کرتے ہیں، مگر اسے اپنی روزمرہ گفتگو میں شامل نہیں کر پاتے۔
میں خود گزشتہ تین دہائیوں سے ممبئی میں مقیم ہوں، مجھے مراٹھی پسند بھی ہـے، مگر آج تک میری مراٹھی ابتدائی درجے سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ کیوں؟ وجہ صاف ہے: “یہ زبان میرے پیشہ ورانہ دائرے کا حصہ کبھی نہیں بنی، اس لیے اسے نہ جاننا میری کمزوری نہیں لگتی۔”
اعداد و شمار بھی یہی کہتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق ممبئی میں صرف 36 فیصد لوگ مراٹھی کو مادری زبان مانتے ہیں۔ باقی سب کون ہیں؟ گجراتی، یوپی، بہار، ایم پی، تمل، ملیالی، پنجابی، سندھی، پارسی، گوا اور دیگر زبانوں کے بولنے والے۔ درحقیقت یہی ممبئی کا اصل رنگ ہے: کثیر ثقافتی، کاسموپولیٹن۔
برسہا برس سے ممبئی میں اقامت پذیر اِن غیر مہاراشٹرین کی شہریت یا ان کے کلچرل کو لے کر گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر پانچ – سات برس بعد انہیں نشانہ بنایا جاتا ہـے۔ ادھر جب سے ٹھاکرے برادرز نے زبان کو لے کر “مراٹھی اسمتا” کا ایشو ایک بار پھر سے گرمایا ہے، لگاتار تصادم اور “تھپڑ رسید” کی خبریں منظر عام پر آرہی ہیں، حال ہی میں زبان کا جھگڑا ممبئی کی لوکل ٹرین میں بھی دیکھنے میں آیا۔ ایک پُرہجوم کمپارٹمنٹ میں سیٹ حاصل کرنے کی جد وجہد پر جھگڑا اُس وقت شروع ہوا جب ایک عورت نے دوسری خاتون کو مراٹھی نہ بولنے پر ڈانٹنا شروع کر دیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں مراٹھی عورت کو صاف طور پر یہ کہتے سُنا گیا کہ “جو لوگ ممبئی میں رہنا چاہتے ہیں وہ مراٹھی بولیں ورنہ وہ ممبئی سے چلے جائیں۔” دو خواتین کے درمیان ہونے والے اس جھگڑے میں جوں جوں غصہ بڑھتا گیا، دوسری خواتین مسافر بھی اس میں شامل ہوتی گئیں اور معمولی بات، ذاتی اختلاف سے لے کر زبان اور شناخت کی بنیاد پر ایک بڑے تصادم تک پہنچ گئی۔ ایک ہی مطالبہ کرتے ہوئے کئی آوازیں سنائی دیں: “مراٹھی بولو یا باہر جاؤ۔”
‘صرف مراٹھی میں بات کرو’ کے نعرے لگانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ممبئی کی تاریخ اور ورثہ مہاراشٹر کے باقی علاقوں سے بالکل مختلف ہے۔ اگر تاریخ کے اوراق پلٹیں اور ماضی بعید کے ادوار کو تحقیقی نظریـے سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ مراٹھی لوگ دراصل ممبئی میں نسبتاً دیر سے آئے۔
“یہ شہر، ریاست مہاراشٹر کے بننے سے پہلے سے موجود ہے۔ ممبئی کے ساحلی علاقوں کے ماہی گیر اور آگری کسان ابتدا میں نچلی ذات کے لوگ تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ عیسائی مذہب اختیار کر چکے تھے جنہیں بعد میں ‘ایسٹ انڈین’ کہا گیا کیونکہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے کام کرتے تھے۔ پرتگالیوں نے 1534ء میں گجرات کے حکمران بہادر شاہ سے ممبئی کے ساتوں جزیرے چھینے، لیکن انہوں نے 1668ء میں ان جزائر کو برطانویوں کو بطور جہیز دے دیا۔ اِدھر پارسی گجرات سے آئے اور جلد ہی ممبئی پر چھا گئے۔ 1750ء میں انہوں نے ایشیا کی پہلی خشک بندرگاہ بنائی۔ شہر کی کئی مشہور عمارات، مجسمے اور ادارے ان کے مرہونِ منت ہیں۔
آزادی کے بعد ایک دہائی تک گجرات اور مہاراشٹر ایک ہی ریاست یعنی بمبئی اسٹیٹ میں شامل تھے۔ وزیراعظم جواہر لال نہرو شروع میں لسانی بنیادوں پر ریاست تقسیم کرنے کے حق میں نہیں تھے، مگر دونوں طرف سے دباؤ بڑھا۔ اصل جھگڑا ممبئی پر تھا۔ گجراتیوں کا ماننا تھا کہ شہر ممبئی پر ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا مراٹھیوں کا، کیونکہ دونوں کی آبادی تقریباً برابر تھی۔ 1960ء میں جب بمبئی اسٹیٹ تقسیم ہوئی تو ممبئی مہاراشٹر کا حصہ بنا، لیکن مراٹھی بولنے والے کبھی بھی شہر کی شناخت پر مکمل قبضہ حاصل نہ کر سکے۔ شہر کی روح آج بھی کثیرالثقافتی، جدید اور بالی ووڈ جیسے رجحانات سے جڑی ہوئی ہے۔” (اقتباس: دی انڈین ایکسپریس 13 جولائی 2025)
تاریخ گواہ ہـے کہ ممبئی کی ترقی میں مقامی آبادی کا اتنا حصہ نہیں، جتنا باہر سے آ کر یہاں آباد ہونے والے انسانوں کا ہـے، پھر چاہـے وہ اتر بھارتی ہوں، بہاری ہوں، گجراتی ہوں، پنجابی ہوں اور دیگر ریاستوں کے لوگ۔ اگر ممبئی کو ملک کا فائنانشیل ہب کہا جاتا ہـے، تو ان ہی خصوصیات کے باعث۔ نظر دوڑائیں تو مثالیں بہت سی ہیں۔ دنیا کے سارے بڑے شہر، نیو یارک سے لے کر ممبئی تک، مہاجرین کی محنتوں کی ایک لا متناہی داستان ہیں۔ ہجرت انسانی تاریخ کا ایک لازمی جُز ہـے، اور ممبئی اس سے اچھوتا نہیں ہے۔
رہی بات زبان اور اس سے متعلق زبردستی یا سختیوں کی تو بس اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ آپ فقط اپنا بستہ اٹھائیں اور بہار کے طول و عرض میں نکل جائیں۔ یا اتنا بھی نہ کریں، بس بہار جانے والی کسی ٹرین کے جنرل ڈبّـے میں بیٹھ جائیں، آپ کو پتا لگ جائے گا کہ اس ڈبّـے میں موجود لوگ ہندی بولتے ہیں یا پھر اپنی مختلف مادری زبان!!!
خیال رہـے…. اردو کی ہی طرح ہندی زبان پر بھی ابھی تین صدیاں نہیں گزریں۔ زبانیں صدیوں پر محیط ہوتی ہیں تب کہیں جا کر ان میں نُدرت پیدا ہوتی ہـے۔ اردو اور ہندی اور اس جیسی زبانیں پیغام کی ترسیل کیلئے تو مناسب ہیں، لیکن فارسی، عربی اور سنسکرت سے الفاظ مستعار لئے بغیر، ان زبانوں میں پیغام رسانی کے علاوہ بہت زیادہ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں یہ اختلاف نہیں بھلا سکتے: ہندی کے استعمال پر اصرار اور زبردستی نے کتنی ہی قدیم زبانوں کو نگل لیا۔
جس طرح ہندی سیکھنے اور بولنے کی سختی مراٹھی بولنے والوں کو نامناسب لگ رہی ہـے، عین اسی طرح ’مراٹھی بولنا ہی پڑے گا‘ کی گردان بھی نامناسب ہـے۔
حالانکہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہـے کہ اتر پردیش، راجستھان اور گجرات سے آئے لاکھوں لوگ انتہائی بہترین مراٹھی بولتے ہیں۔ وضاحت بہت سادہ ہـے: جو لوگ پریل، دادر، ماٹونگا، تھانے اور ڈومبیولی جیسے مراٹھی اکثریتی علاقوں میں آ بسے، آپ ان سے مل کر دیکھئے کہ وہ کتنی اچھی مراٹھی بولتے ہیں، خواہ وہ کسی بھی ریاست سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس کے برعکس ایک شخص پٹنہ، لکھنؤ یا جے پور، احمدآباد سے نکلا اور ناگپاڑہ، گوونڈی، کرلا، ممبرا اور میرا روڈ میں آ بسا۔ یہاں نہ تو اُسے مراٹھی آبادی ملی کہ وہ ان کی زبان سے ہمکنار ہوتا، نہ ہی اسے مراٹھی بولنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ وہ اپنی ہی زبانیں بولنے والوں میں آ کر آباد ہو گیا، اس طرح مراٹھی کے تعلق سے نابلد رہا۔
کیوں کہا جا رہا ہـے سیاسی اسکرپٹ
قابلِ غور باتیں:
° ہندی کی سختی کے نفاذ سے پہلے راج ٹھاکرے نے دلّی میں امت شاہ سے ملاقات کی۔
°اس کے بعد وہ وزیر اعلی فردنویس سے ملے۔
° بی جے پی ساؤتھ میں ہندی زبردستی ‘نافذ’ کئے جانے پر ردعمل دیکھ ہی چکی تھی۔
° مہاراشٹر میں مراٹھی کے تئیں لوگوں کی حسّاسیت کے باوجود ‘ہندی سختی’ کا جی آر کیوں نکالا گیا؟ اور اگر نکال ہی دیا گیا تھا تو اسے ٹھاکرے برادران کے مشترکہ اعلامیہ کے بعد واپس کیوں لے لیا گیا۔
کہیں یہ سب سیاسی ‘قواعد’ تو نہیں؟
جی ہاں، ذرا اس پر بھی غور کیجئے!