By – Waseem Raza Khan
پچھلے کچھ دنوں سے سماجی کارکن اور مراٹھا ریزویشن کی مانگ کرنے والے دبلے پتلے مگر ضدی مراٹھا شخص منوج جرانگے پاٹل مراٹھا سماج کو کنبی کاسٹ ثابت کر کے مراٹھوں کو او بی سی کے زمرے والی ذات بنانے کے لیے مہاراشٹر سرکار کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے تھے. پچھلے سال بھی جرانگے پاٹل نے سرکار سے اپنی مانگ منوانے کیلئے بھاری احتجاج کیا تھا. یہ الگ بات ہے کہ اس احتجاج میں کیا سیاسی چالیں تھیں لیکن اس وقت ایکناتھ شندے کی تیر کمان والی سرکار نے جرانگے کو ریزویشن دینے کی امید دلا کر انہیں مطمئن کر دیا تھا، اس دوران کئی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے اور خود وہ مراٹھا جو خود کو اونچی ذات مانتے ہیں انہوں نے منوج جرانگے کے احتجاج اور مانگ کو ڈائنامائیٹ کرنے کی پوری کوشش کر ڈالی تھی.
لیکن کچھ دنوں پہلے جرانگے پاٹل نے موجودہ بی جے پی، شیوسینا اور اجیت پوار والی راشٹروادی کی ٹریپل انجن سرکار کے سامنے پھر ایک بار بڑی مصیبت کھڑی کر دی. انہوں نے اعلان کر دیا کہ اس بار وہ پھر سے اپنی پوری طاقت کے ساتھ احتجاج کریں گے. سرکار نے مراٹھوں کے کنبی ذات ہونے کے جو ثبوت مانگے تھے وہ انہوں نے حاصل کر لیے یہ اعلان کر کے جرانگے نے سرکار کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیے. انہوں نے مانگ کر ڈالی کہ 1918 میں حیدر آباد کے نظام شاہی حکومت کے آخری حکمراں نواب عثمان علی آصفجاہ (ہفتم) نے ذات پات کا ڈاٹا تیار کروا کر جو حکومتی گزیٹ تیار کیا تھا جس میں مراٹھا سماج کو کنبی ذات مان کر نچلا درجہ دیا گیا تھا، اس گزیٹ کے مطابق مراٹھوں کو او بی سی میں شامل کیا جانا چاہیے. اس مانگ کو لے کر وہ مہاراشٹر سرکار کے سینے پر جا بیٹھے. ان کے ساتھ ان کے حامیوں کی تعداد اتنی ہو گئی کہ شہر کی انتظامیہ نے معاملہ عدالت میں پیش کر جرانگے کو ممبئی سے نکال دینے تک کی مانگ کر ڈالی. لیکن سرکار تذبذب میں تھی کہ ہزاروں لوگوں کو نکال باہر کرنے یا ان پر تشدد کرنے سے انتظامیہ کو خطرہ تو تھا ہی، سرکار کی کرسی بھی ہلتی نظر آنے لگی تھی. آخر کار سرکار کو جرانگے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑ گئے اور حیدرآباد گزیٹ کے اندراج کے مطابق سرکار نے نئے آرڈر پاس کرنے کا قبول نامہ دے دیا اور منوج جرانگے نے اپنی تین دن سے چل رہی ہنگامی بھوک ہڑتال ختم کر دی.
ملک کی موجودہ بی جے پی سرکار نے سیاسی پینترا بازی کے کھیل کھیلتے ہوئے بھگوا حمایتی عوام کی نظر میں مغل بادشاہوں اور خاص کر اورنگزیب رحمۃاللہ علیہ کو مراٹھا سامراج کا بد ترین دشمن اور بے رحم حکمران ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی. تقریباً کئی مہینے بی جے پی اور سنگھ پریوار کے میڈیا پر اورنگ زیب کو بدترین ثابت کرنے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرنے پڑے. کیا ٹی وی اور کیا فلم ہر طرح سے مغل دشمن بھاجپائی سرکار نے سرمایہ لگا کر اورنگ زیب کو بدنام کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن اتنی سرمایہ کاری کرنے کے بعد مہاراشٹر حکومت کو انہی اورنگ زیب کے ایک ادنیٰ سے درباری میر قمرالدین خان صدیقی (آصفجاہ اول) کی ساتویں پشت کے بنائے قانون کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے. مہاراشٹر کی کیسری رنگ میں رنگی سرکار نے اورنگ زیب سے دشمنی نکالنے کے دور میں سوچا بھی نہیں ہوگا کہ جس بادشاہ کی قبر توڑنے اور اس کی بے حرمتی کرنے کی جرات وہ کر رہے ہیں، حکومت کو اس کے نہیں بلکہ اس بادشاہ عالی جاہ کے ایک درباری کی ساتویں پشت سے پیدا ہونے والے حیدرآباد کے نظام کے بنائے گزیٹ کا ہی سہارا لینا پڑے گا. اس صورت میں کہہ سکتے ہیں کہ براہ راست تو نہیں لیکن بالراست ہی اورنگزیب نے دنیا سے پردہ کر جانے کے بعد بھی اپنے دشمنوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا.
اس کامیابی کا سہرا پوری طرح سے جیالے مموج جرانگے کے سر جاتا ہے کہ انہوں نے مغلوں اور اورنگ زیب عالمگیر کے احسان فراموش مخالفین کو نہ صرف اپنے سامنے جھکایا بلکہ یہ ثابت کروا دیا کہ جس اورنگزیب کو بدنام کرنے میں بھگوا حواریوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی انہیں یہ بتا دیا کہ تمہارے لیے نظام آصف جاہ ہفتم ہی کافی ہے، عالمگیر تک پہنچوگے تو تمہارے بھگوا چولے اتر جائیں گے. کہا جا سکتا ہے کہ مہاراشٹر کی پی جے سرکار منوج جرانگے کے آگے جھک گئی بلکہ صدیوں پہلے دنیا چھوڑ چکے اورنگ زیب سے بھی ہار گئی.