انٹرویو سے کیوں بھاگتے ہو ‘صاحب’
وسیم رضا خان
جس وقت میں احمدآباد کے ایک مقامی ہندی اخبار میں بطور رپورٹر کام کیا کرتا تھا، اس زمانے میں نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلی ہوا کرتے تھے. میں نے ماضی میں مودی کی تین بڑی پریس کانفرنس میں شرکت کی ہے. اس کے علاوہ نوراتری کے وقت جب گجرات سرکار کروڑوں روپے Vibrant Gujarat کے نام پر ڈانڈیا راس میں پھونک دیتی تھی، میں نے مودی کے ان 9 دنوں کا جلوہ بھی دیکھا ہے. 9 راتوں اور دس دنوں تک گجرات کا میڈیا سرکاری ملازمین کی طرح کام کرتا اور مودی کی تھاپ ہر تھرکتا تھا اور چوبیسوں گھنٹے اسی نشے میں رہنے کے بعد پھر کون سوال کر سکتا ہے. مجھے ہر پروگرام کے وقت کہا جاتا تھا کہ میں کھاتا پیتا نہیں ہوں تو خاموش رہوں. نیا ہونے کی وجہ سے میں کچھ بول نہیں سکتا تھا اور دو چار مسلمان صحافی سیکڑوں کے بیچ بول بھی کیا سکتے ہیں؟ یہ ذکر میں نے اس لیے کیا کہ اس زمانے میں میڈیا خاموش تو تھا لیکن سوشل میڈیا کے نہ ہونے سے کسی کو اس کی سدھبدھ نہیں ہوا کرتی تھی اور وہ نریندر مودی تھا جسے آج پوری دنیا جانتی ہے. اس زمانے میں ہمیں خاموش رہنا تھا کیونکہ کہاں، کیا اور کسے بولنا ہے یہ پہلے سے طے کر لیا جاتا تھا لیکن آج سوشل میڈیا کے دور میں ہزاروں بولنے والے وارد ہو گیے ہیں.
ملک کی ایک ایسی پارٹی جسے آج تک بی جے پی ہی بی ٹیم بولا جاتا ہے، جی ہاں ہماری مجلس، اس کے سربراہ تو نیوز چینلوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی اتنا بولتے ہیں ہر جگہ دوسرے تیسرے وال پر وہی نظر آتے ہیں. ان کے پاس بولنے، سمجھانے اور سدھارنے کیلئے بہت کچھ ہے اس لیے وہ بولتے ہیں اور آج وہ پورے ملک میں جانے جاتے ہیں. ان کی پارٹی مہاراشٹر میں بھی وارد ہوئی. یہاں بھی پچھلے دس سالوں میں ان کے ایم ایل اے بنے. ایک اچھا ممبر پارلیمنٹ بھی انہوں نے دیا. مالیگاؤں شہر میں آکر بھی انہوں نے مضبوط ٹیم بنا کردو مرتبہ اپنا ایم ایل اے اسمبلی میں بھیجا. ان کے سابق ایم پی جو بنیادی طور سے بہترین صحافی رہے ہیں اچھا بولنے اور مخالفین کو لتاڑنے میں ماہر ہیں. لیکن مالیگاؤں شہر کی ٹیم بنانے میں ان سے غلطی ہو گئی. یہاں عوام کی غلطی سے انہیں ایم ایل اے تو مل گیا لیکن اندازہ ہے کہ مہاراشٹر کے ناکام ایم ایل ایز میں ان کا شمار ہے. جہاں پارلیمنٹ میں مہاراشٹر کی پتنگ اڑانے کیلئے ایک صحافی کا انتخاب کیا جاتا ہے وہیں اسی پارٹی کا مالیگاؤں شہر کو ایک ایسا ایم ایل اے مل جاتا ہے جو صحافیوں سے دور بھاگتا ہے. مفتی صاحب صرف یوٹیوبرس کے سامنے بڑبڑا کر سمجھتے ہیں انہوں نے کافی پراعتماد کام کر لیا ہے. افسوس اس بات کا بھی ہے کہ مقامی پڑھے لکھے سوجھ بوجھ والے صحافی بھی ان سے سوال نہیں کرتے جبکہ وہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں ان کے سوالوں سے مقامی ایم ایل اے کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے. مفتی صاحب سے میری گذارش ہے کہ جناب میرے پاس کئی ایسے سوال ہیں جو پچھلے دس سالوں میں کسی نے نہیں کیا اور جن کے جوابوں تک پہنچنے کیلیے شاید آپ کو بغلیں جھانکنی پڑے. صاحب نریندر مودی مت بنیے، سامنے آکر یوٹیوب سے ہٹ کر صحافیوں سے بات کیجیے. شہر کی ترقی کیلئے عوام نے آپ کو چنا ہے کہ آپ اسمبلی میں شہر کے مسائل کو حل کر کے ترقیاتی کام کریں گے لیکن آپ کی جانب سے نہ پچھلی ٹرم میں کوئی مثالی کام ہوا ہے اور اس بار تو ایسا لگتا ہے مالیگاؤں اندرون اسمبلی حلقے سے کوئی اسمبلی میں گیا ہی نہیں ہے.
ایک بہترین چھوٹا سا علاقہ مسلمانوں کو نصیب ہوا ہے جہاں سے ہم اپنا نمائندہ بھیج سکتے ہیں لیکن اس کا شہر کی عوام کو کوئی فائدہ ہی نہیں مل پا رہا. ایسا نہیں کہ میں صرف مفتی صاحب کی مخالفت کر رہا ہوں، میں ہر اس نمائندگی کے خلاف ہوں جس کہ وجہ سے شہر صرف لفاظی کےجال میں پھنستا چلا گیا. بیرون شہر کے مقابلے دیکھا جائے تو مالیگاؤں کی سیاست صرف کنویں میں مینڈک کی ٹرٹراہٹ ہے، کنویں سے باہر کی دنیا نہ عوام جانتی ہے اور نہ ہی عوامی نمائندے. ایک زمانے میں نہال احمد کے مخالف لیڈر حاجی شبیر احمد عوام کو بے وقوف بناتے تھے کہ مالیگاؤں کا ایم آئی ڈی سی نہال احمد نے سنر کو دلوا دیا. جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے، سنر ایم آئی ڈی سی سنر تعلقہ کے مڑیگاؤں میں واقع ہے جسے انگریزی میں Malegaon لکھا جاتا ہے اور جو وہاں کے اس زمانے کے ایم ایل اے سوریہ بھان گڑاکھ کی کوششوں کا ثمرہ ہے. لیکن ہماری عوام آج بھی وہی سمجھتی آ رہی ہے اس لیے آج کے عوامی نمائندوں کو اندازہ ہو گیا ہے کہ عوام کی سمجھ کہاں تک ہے. اس کی معلومات آر ٹی آئی کے ذریعے لی جا سکتی ہے. مثال دینے کا مقصد یہ ہے کہ کیا ہماری سمجھ اتنے سالوں کے بعد بھی نہیں بدلی؟
ایک عوامی سروے کے مطابق پتہ یہ چلا کہ اس مرتبہ کے کارپوریشن الیکشن میں بھی صرف وعدوں کا راگ الاپا جائے گا اور ہر پارٹی کے اسٹیج سے صرف ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا کام کرتے ہوئے ہر پارٹی کے امیدوار اور لیڈران عوام کو صرف گمرہ کریں گے کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ عوام کی سوچ روڈ اور گٹر سے آگے نہیں جانے والی. ہو سکتا ہے موجودہ ایم ایل اے کے لیڈر اسدالدین صاحب اور ان کے بھائی اکبرالدین بھی مالیگاؤں آئیں، ہو سکتا ہے پھر وہ، اسکول، کالج اسپتال، روزگار کی بات کریں لیکن کیا کریں یہاں تو ان کی پارٹی کے ایم ایل اے کو سرکار فنڈ بھی نہیں دیتی. اس الیکشن میں بھی دونوں ہرے جھنڈے ایک دوسرے کی بکھیا ادھیڑیں گے. سماجوادی کے لوگ تیسری جانب سے دونوں پر طعنہ کشی کریں گے اور عوام پھر بے وقوف بنے گی کیونکہ جیسے لیڈر ہوں گے ان کے امیدوار بھی ویسے ہی ہوں گے. جو شہر ایم ایل اے اور ایم پی سے صرف روڈ گٹر کی امیدیں رکھتا ہو وہاں کے لیڈران انہیں اس سے بڑھ کر کچھ دے بھی نہیں سکتے.
مضمون کو احمدآباد سے مالیگاؤں لانے کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ملک کا وزیر اعظم جس نہج پر چل کر خود کو بچاتا آ رہا ہے، ایم ایل اے مفتی اسماعیل صاحب بھی وہی تو کر رہے ہیں. اور صرف وہی نہیں ہر لیڈر ان صحافیوں سے گھبراتا ہے جو ان کی سیاست اور کاموں کو سامنے رکھ کر سوالات کرتا ہے. ایسے میں یوٹیوبر ان کے لیے بڑا سہارا بن گئے ہیں جہاں صحافی نہیں ہوتے، سوال نہیں ہوتے اور لیڈر سیاسی اسٹیج کی طرح ہی لفظوں کے گیم کھیل کر عوام کے جذبات کے ساتھ کھیلتا اور ووٹوں کی لوٹ کھسوٹ کا بازار لگاتا ہے. وسیم رضا خان